نئی دہلی،25؍مئی(ایس او نیوز؍ایجنسی)کورونا انفیکشن کی دوسری لہر کے قہر نے پہلے ہی پوری دنیا کو دہشت میں ڈال رکھا تھا، پھر بلیک فنگس، اور پھر وہائٹ فنگس نے ہندوستان میں لوگوں کی مشکلیں مزید بڑھا دیں۔ اب ایسی خبریں سامنے آ رہی ہیں کہ زرد فنگس کا مریض بھی سامنے آیا ہے اور یہ فنگس بلیک یا وہائٹ فنگس کے مقابلے زیادہ خطرناک ہے۔
بتایا جاتا ہے کہ زرد فنگس کا مریض اتر پردیش کے غازی آباد شہر میں سامنے آیا ہے۔ غازی آباد کے ای این ٹی اسپیشلسٹ ڈاکٹر بی پی تیاگی کا دعویٰ ہے کہ بلیک یا وہائٹ فنگس کے مقابلے میں زرد فنگس کہیں زیادہ خطرناک ہے۔ڈاکٹر بی پی تیاگی کا کہنا ہے کہ وہائٹ فنگس لوگوں کے پھیپھڑے پر اثر ڈالتا ہے اور بلیک فنگس دماغ کو متاثر کرتا ہے، لیکن زرد فنگس ان دونوں سے زیادہ خطرناک ہے کیونکہ یہ زخم کو بھرنے سے روکتا ہے جس سے مریض کیلئے پریشانی پیدا ہو جاتی ہے۔
ڈاکٹر تیاگی نے یہ بھی بتایا کہ آج سے پہلے کسی بھی انسان میں اس طرح کا فنگس نہیں پایا گیا ہے، حالانکہ کچھ جانوروں میں اس طرح کا فنگس ضرور ملا ہے۔جہاں تک زرد فنگس کی علامت کا سوال ہے، ڈاکٹر بی پی تیاگی نے بتایا کہ اس فنگس کا حملہ ہونے پر ناک بہنے لگتی ہے اور سر درد بھی ہوتا ہے۔ سب سے زیادہ مشکل تب پیدا ہوتی ہے جب یہ فنگس کسی زخم کو بھرنے نہیں دیتا۔ ہندی نیوز پورٹل اے بی پی نیوز نے ڈاکٹر تیاگی سے خصوصی بات چیت کی جس میں ایک سوال کا جواب دیتے ہوئے انھوں نے بتایا کہ میرے پاس ایک مریض آیا جس میں تین فنگس ملے۔ ان میں ایک بلیک، ایک وہائٹ اور ایک زرد فنگس ہے۔ میرا 30 سال کا کیریر ہے اور زرد فنگس میں اپنی لائف میں پہلی بار دیکھ رہا ہوں۔
دوسری طرف پہلے ہی کورونا انفیکشن کے درمیان بلیک اور وہائٹ فنگس کی دستک نے لوگوں کو بے چین کر دیا ہے۔ اس بیماری سے عام لوگ پریشان اور فکرمند ہیں۔ ڈاکٹروں کی مانیں تو بلیک فنگس دل، ناک اور آنکھ کو زیادہ نقصان پہنچاتا ہے۔ پھیپھڑوں پر بھی اس کا اثر ہے۔ جب کہ وہائٹ فنگس پھیپھڑوں کو اس کے مقابلے زیادہ نقصان پہنچاتا ہے۔اچھی بات یہ ہے کہ ماہرین کے مطابق بلیک اور وہائٹ فنگس کا علاج پوری طرح سے موجود ہے۔ بس اس میں احتیاط سے کام لینے کی ضرورت ہے۔ پوروانچل کے مؤ علاقے میں وہائٹ فنگس کے کیس ملنے سے لوگوں میں فکر ہے۔ اس تعلق سے ہر جگہ کے ہیلتھ ڈپارٹمنٹ کو الرٹ کیا گیا ہے۔ یہ کورونا سے ملتی جلتی علامتوں والی بیماری بتائی جا رہی ہے۔ وہائٹ فنگس پھیپھڑوں کو متاثر کر اسے ڈیمیج کر دیتا ہے اور سانس پھولنے کی وجہ سے مریض کورونا کی جانچ کراتا رہ جاتا ہے۔ سینے کی ایچ آر سی ٹی اور بلغم کے کلچر سے اس بیماری کا پتہ چلتا ہے۔
کے جی ایم یو کے ریسپی ریٹری میڈیسن ڈپارٹمنٹ کے اسسٹنٹ پروفیسر ڈاکٹر جیوتی واجپئی نے بتایا کہ فنگس صرف فنگس ہوتا ہے۔ نہ تو وہ سفید ہوتا ہے اور نہ ہی کالا ہوتا ہے۔ میوکرمائکس ایک فنگل انفیکشن ہے۔ یہ کالا دکھائی پڑنے کے سبب اس کا نام بلیک فنگس دے دیا گیا ہے۔ سیاہ چکتہ پڑنے سے ہی اس کا نام بلیک فنگس پڑا۔ میڈیکل لٹریچر میں وہائٹ اور بلیک فنگس کچھ نہیں ہے۔ یہ الگ کلاس ہوتی ہے۔ یہ لوگوں کو سمجھنے کیلئے بلیک اینڈ وہائٹ کا نام دیا گیا ہے۔ وہائٹ فنگس کینڈیڈیاسس (کینڈیڈا)آنکھ، ناک اور گلے کو کم متاثر کرتا ہے۔ یہ سیدھے پھیپھڑوں کو متاثر کرتا ہے۔سینے کی ایچ آر سی ٹی اور بلغم کے کلچر سے اس بیماری کا پتہ چلتا ہے۔
پھیپھڑے میں کورونا کی طرح دھبے ملتے ہیں۔ پہلی لہر میں ان دونوں کا کوئی خاص اثر نظر نہیں آیا۔ دوسری لہر میں وائرس کا ویریئنٹ بدلا ہے۔ اس بار کی لہر کی زد میں خاص کر نوجوان آئے۔ یہ کم دنوں میں بہت تیز رفتاری سے بڑھا ہے۔ اس کی وجہ سے لوگوں کو طویل مدت تک اسپتالوں میں رہنا پڑا ہے۔ اس کے علاوہ اسٹیرائیڈ کا کافی استعمال کرنا پڑا ہے۔ ذیابیطس کے مریض بھی زیادہ اس کی زد میں آئے ہیں۔ انھوں نے بتایا کہ آکسیجن کی پائپ لائن اور ہیومیڈیفائر صاف ہو۔ ذیابیطس کنٹرول میں رکھیں۔ پھیپھڑوں میں پہنچنے والی آکسیجن صاف اور فنگس سے پاک ہوں۔ اسے لے کر محتاط رہیں بلکہ پریشان نہیں ہونا چاہیے۔